Author : Muhammad Afzal
Working to advance the whole of Pakistani agriculture that improve profitability, stewardship and quality of life by the use of Technology.
Studied at : KTH Royal Institute of Technology, Stockholm Sweden.
Co-founder : Nordic Experts AB Sweden
Lives in : Stavanger, Norway
From : Shorkot, Dist Jhang Pakistan
Timestamp: 31 December 2017 08:59 am
Written by:
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو لاہور
چاول کا کھیت بظاہر پُر سکون اور لہلہاتا ہوا نظر آتا ہے لیکن یہ سکون اپنے اندر ایک تلاطم چھپائے ہوئے ہے جو اس وقت شدت اختیار کر لیتا ہے جب مکڑیاں شکار پر نکلتی ہیں۔
ذرا سوچیے وہ کیا منظر ہو گا جب ایک ہی وقت میں چالیس سے زیادہ اقسام کی سینکڑوں مکڑیاں زمین سے لے کر چاول کے پودے کے تاج تک کھیتوں پر حملہ آور ہونے والے سینکڑوں کی تعداد میں کیڑے مکوڑوں اور سنڈیوں کا شکار کر رہی ہوں۔
تاہم یہ سب اس قدر خاموشی سے ہوتا ہے کہ اب سے کچھ عرصہ قبل تک کسانوں کو بھی اس حوالے سے علم نہیں تھا۔ وہ مکڑی کو بھی نقصان دہ کیڑا تصور کرتے ہوئے زہریلے کیمیکل کا سپرے سے مار دیتے تھے۔ زیادہ تر کسان آج بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
پاکستان میں کسانوں کو آہستہ آہستہ مکڑی کی صلاحیتوں کی خبر پہنچ رہی ہے۔ مکڑی خالصتاً گوشت خور ہے۔ وہ سبزہ نہیں کھاتی۔
کسی بھی فصل میں موجود وہ واحد شکاری تو نہیں، مگر ’بہترین شکاری‘ ضرور ہے۔
دیگر حشرات خوراک کے لیے شکار کرتے ہیں، مکڑی کو شکار کا شوق ہے۔ ایسے شکاری کی موجودگی میں نقصان دہ کیڑا فصل پر حملے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔
بین الاقوامی محققین نے پتا چلایا ہے کہ مکڑیوں کو اگر دیگر مفید طریقوں کے ساتھ ملا کر نقصان دہ کیڑوں کے خلاف استعمال کیا جائے تو زہریلے کیمیکل سے پاک خوراک حاصل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کو اس طریقہ کار سے دہرا فائدہ ہو گا۔ ایک تو بین الاقوامی منڈی میں اس کی زرعی اجناس قابلِ قبول ہوں گی اور اس وجہ سے اس کی برآمدات بڑھیں گی۔
اس کے لیے پاکستان کو کن مکڑیوں کی ضرورت ہے، وہ کہاں سے آئیں گی اور انہیں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے حیاتیات کے ماہرین سے بات کی ہے۔
'مکڑیاں کھاتی کم، مارتی زیادہ ہیں'
ڈاکٹر محمد طاہر لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے مکڑیوں پر تحقیقاتی مقالے لکھ رکھے ہیں اور اس علم میں مہارت رکھتے ہیں جسے علمِ عنکبہ بھی کہا جاتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ مکڑیوں کو حیاتیاتی طریقے سے حشرات الارض پر قابو پانے کا بہترین ایجنٹ سمجھتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'مکڑیاں کھاتی کم اور مارتی زیادہ ہیں۔ وہ عموماً ضرورت سے پچاس فیصد زیادہ کیڑے شکار کرتی ہیں۔ مکڑیاں لطف کے لیے شکار کھیلتی ہے۔ '
وہ مکڑیوں کی خصوصیات بتانا شروع کریں تو انہیں ذہن پر زور دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مکڑیاں کھیت میں حشرات کی تعداد زیادہ یا کم ہونے کے ساتھ اپنی شکار کی صلاحیت بڑھا اور گھٹا سکتی ہیں۔ یہی عمل ان کی افزائشِ نسل کے ساتھ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر کا کہنا ہے کہ 'شکار نہ ہو تو وہ ایک مہینے سے زیادہ بغیر کھائے گزار سکتی ہیں۔ ان کی اقسام اتنی زیادہ ہیں کہ یہ تمام تر پودے کو حشرات کے حملے سے بچاتی ہیں۔ یہ دن رات شکار کرتی رہتی ہیں۔'
'جال بچھا کر انتظار کرتی ہے'
مکڑیوں کی کچھ اقسام جال بن کر شکار پکڑتی ہیں، کچھ پھدک کر تو کچھ زمین پر دوڑ لگا کر کیڑوں کو دبوچتی ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہیں جو پودوں کے تنوں پر اوپر نیچے آتی جاتی رہتی ہیں۔
اس طرح کسی بھی کھیت میں زمین سے لے کر پودے کی اوپری سطح تک انھوں نے ہر مقام گھیر رکھا ہے۔ جال بننے والی مکڑی کی خصوصیات بتاتے ہوئے ڈاکٹر محمد طاہر کہتے ہیں کہ 'یہ کھیت میں پائے جانے والے شکار کی تعداد اور ہیت کو مدِ نظر رکھ کر جال کا نمونہ بناتی ہیں۔'
ان میں کچھ باقاعدگی سے جالا بناتی ہیں جس میں دو تاروں کے درمیان یکساں فاصلہ ہوتا ہے۔ جبکہ کچھ کا جال بے قاعدہ ہوتا ہے۔ ہوا کے رخ اور شکار کی اقسام کو دیکھتے ہوئے یہ امودی، افقی یا ترچھے طرز کا جال بُنتی ہیں۔ یہ پودے کے اوپر، درمیان یا نیچے کے حصے پر کہیں بھی ہو سکتا ہے۔
'عموماً یہ شام کے وقت جالا بننا شروع کرتی ہیں اور ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کر لیتی ہیں۔ پھر یہ جال بچھا کر انتظار کرتی ہیں۔ رات کے وقت کیڑے اس کے جال میں پھنسنا شروع کر دیتے ہیں جنھیں یہ اپنی مرضی سے کھاتی ہیں۔'
'ریشم پر چلتے یہ کئی کلو میٹر سفر طے کرتی ہیں'
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہالی ووڈ کی مشہور فرینچائز سپائیڈرمین کا مرکزی کردار نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر کے مطابق مکڑی اپنے جسم سے جس ریشم کا اخراج کرتی ہے جو ہوا کے دوش پر اڑتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر بتاتے ہیں کہ 'اس عمل کو بیلوننگ کہتے ہیں۔ اس طرح مکڑی کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ اس کا ریشم انتہائی مضبوط مگر لچکدار ہوتا ہے۔ موازنہ کیا جائے تو اس کا ریشم سٹیل سے نو گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔'
یہی ریشم فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کے لیے سدِ راہ کا کام بھی کرتا ہے۔
'مکڑی فصل کی چوکیدار ہے'
مکڑی کی نقل و حرکت سے جب ریشم فصل پر پھیل جاتا ہے تو اسے دیکھ کر نقصان دہ حشرات اس طرف کا رُخ نہیں کرتے۔ ڈاکٹر طاہر کے مطابق 'یہ ایسے ہی ہے جیسے گلی میں چوکیدار کھڑا ہو تو چور اس طرف کا رُخ نہیں کرتے۔'
اسی طری ریشم کے اس جال اور زمین پر دوڑ کر شکار کرنے والی مکڑیوں کی نقل و حرکت سے پودوں پر موجود کیڑوں کے انڈے نیچے گر جاتے ہیں۔ 'زمین پر درجہ حرارت پودے سے مختلف ہوتا ہے اس لیے یہ انڈے مر جاتے ہیں۔ یوں نقصان دہ کیڑوں کی افزائش نہیں ہو پاتی۔'
ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ اس طرح مکڑی کی محض موجودگی ہی فصلوں کو نقصان دہ کیڑوں کے حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
کیڑا کش ادویات کا متبادل
ڈاکٹر طاہر کے مطابق صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مکڑیوں کو فصلوں پر کیے جانے والے کیڑا کُش ادویات کے سپرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انہیں انفرادی طور پر نہیں بلکہ کیڑا کشی کے مربوط طریقہ انسداد میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس میں مکڑیوں کو دیگر شکاری کیڑوں یا پھر نامیاتی ادویات کے سپرے اور چند نامیاتی کھادوں کے ساتھ ملا کر کھیت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر کے مطابق ان طریقوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر کیمیکل سے پاک یا پھر کم سے کم کیمیکل کے استعمال والی خوراک حاصل کی جا سکتی ہے۔ 'اس طرح سپرے پر اٹھنے والا کسان کا خرچ بھی بچتا ہے اور بہتر معیار کی خوراک ملتی ہے جو برآمد کی جا سکتی ہے۔'
مکڑیاں کہاں سے لائی جائیں؟
ڈاکٹر طاہر کے مطابق ایک بڑی تعداد میں مکڑیاں کھیتوں میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد کو باآسانی بڑھایا جا سکتا ہے۔ 'کھیتوں کے بارڈر پر گھاس چھوڑ دیں، زیادہ زہریلے سپرے نہ کریں۔ مکڑیوں کو افزائشِ نسل کے لیے موزوں ماحول میسر ہو گا تو وہ تیزی سے بڑھیں گی۔'
ان کا کہنا ہے کہ چند شکاری کیڑوں کے برعکس مکڑیوں کی افزائشِ نسل کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کو کھا جاتی ہیں۔ تاہم دنیا کے کئی ممالک میں کسی بھی کیڑے کے حملے کی صورت میں مکڑیوں کے انڈے لے کر انہیں کھیتوں میں سپرے کیا جاتا ہے۔
کیا پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر محمد طاہر کے مطابق پاکستان میں کسان کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'یہاں تو کسان مکڑی کو بھی نقصان دہ کیڑا سمجھ کر تلف کر دیتے ہیں۔'
دوسرا مسئلہ معاشرتی آگاہی کا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے حکام کے مطابق کیمیائی اجزا سے مکمل طور پر پاک فصلیں حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسان مجموعی طور پر مکڑیوں اور کیڑا کشی کے مربوط طریقہ انسداد استعمال کرنے کا فیصلہ کریں۔
اگر ایک کسان اکیلا ایسا کرے گا تو ہمسائےکے کھیتوں میں موجود تمام کیڑے اور حشرات اس کے کھیت پر حملہ آور ہو جائیں گے۔
صوبہ پنجاب کے محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر جنرل ایکشٹینشن ڈاکٹر شیر محمد شیراوت نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبے میں کئی مقامات پر کیڑا کشی کا مربوط طریقہ انسداد استعمال کیا جا رہا ہے۔
مفید کیڑوں کے کارڈ
شیخوپورہ میں محکمہ زراعت نے ایک حیاتیاتی انسداد کی لیبارٹری قائم کر رکھی جہاں دو قسم کے مفید شکاری کیڑوں کی افزائش کی جاتی ہے۔ ان میں سبز پری اور ٹرائیکو گراما، جو ایک قسم کی بھڑ ہوتی ہے، شامل ہیں۔
ڈاکٹر شیر محمد شیراوت کے مطابق 'مفید کیڑوں کے کارڈ کسانوں کو مفت دیے جاتے ہیں۔ ایک ایکڑ میں 20 کارڈ استعمال ہوتے ہیں اور ان سے کسانوں کو سپرے نہیں کرنا پڑتا۔' صوبہ پنجاب میں سبز پری کے 12 لاکھ جبکہ ٹرائیکوگراما کے 15 لاکھ کارڈ کسانوں کو دیے جا رہے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ کپاس جیسی فصلوں میں یہ طریقہ کار مفید ثابت نہیں ہو پایا کیونکہ اس میں سپرے بہت زیادہ کیا جاتا ہے جس سے مفید کیڑے مر جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو زرعی اجناس کی برآمدات بڑھانے کے لیے ایسے طریقوں کے استعمال کی ضرورت ہے کیونکہ 'بین الاقوامی منڈی میں ایسی زرعی اجناس کو نہیں خریدا جاتا جن پر ایک خاص حد سے زیادہ کیمیائی ادویات کا سپرے کیا گیا ہو۔